تو جو مل جائے
تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر16
اگلے دن برف باری کم ہوئ اور اچھی سی دھوپ نکل آئ۔تو وہ سب چئير لفٹ کا مزہ لينے چلے گۓ۔ وہيبہ کو اونچائ سے ڈر لگتا تھا لہذا جب بھی وہ لوگ يہاں آۓ وہ کبھی چئير لفٹ پر نہيں بيٹھی۔ مگر اس مرتبہ خبيب نے دل ميں پکا ارادہ باندھا تھا کہ اسے اپنے ساتھ ضرور بٹھانا ہے۔ "سب کے ٹکٹس لو" کاشف جو کہ چئير لفٹ کے لئيۓ ٹکٹس لينے جا رہا تھا خبيب نے اسے آواز دے کر کہا۔ "سب کے کيوں"پاس کھڑی وہيبہ نے حيرت سے اسے ديکھتے ہوۓ کہا۔ "اسی لئيے کہ سب جائين گے" خبيب نے پرسکون انداز ميں جواب ديا۔ "ميں ہر گز نہيں جا رہی" اس نے گھبرا کر جلدی سے نفی ميں سر ہلاتے کہا۔ "کچھ بھی نہيں ہوتا يار يہ ديکھو اتنا کم فاصلہ ہے۔۔۔۔بس ايسے چلے گی اور دو منٹ ميں پہنچ بھی جائيں گے" خبيب کے سنجيدہ انداز پر وہ کشمکش کا شکار ہوئ۔ "اور جو نيچے کھائياں ہيں وہ۔۔۔" وہيبہ نے اسے مشکوک نظروں سے ديکھا۔ "يار کوئ کھائ نہيں ہے نيچے سے تو سڑک نظر آتی ہے۔۔۔اچھا آپکو ميری بات پر يقين نہيں وہاج بھائ بتائيں اسے کوئ کھائ نہيں ہے بلکہ سڑک ہے" خبيب نے وہاج کو اشارہ کرتے اس سے تصديق چاہی۔ "ہاں يار ہبہ ايسے ہی ڈرتی ہو۔۔۔يار بہت ايڈونچرس ہے" وہاج نے بھی اسے راضی کرنا چاہا۔ "اور ۔۔اور اگر لفٹ گر گئ" وہيبہ نے اپنے خدشے کا اظہار کيا۔ "ڈئير دھاگے سے نہيں بندھی ہوتی اتنی موٹی وائر پر ہوتی ہے۔ اچھی بات سوچ کر جائيں تو اچھا ہی ہوتا ہے۔ اور کس سواری کی آپ گارنٹی دے سکتی ہو کہ وہ بہت سيف ہے۔ گاڑی سے بھی لوگ مرتےہيں، جہاز سے بھی اور بائيک سے بھی۔ بی پريکٹکل" خبيب کی بات دل کولگی لہذا وہ خوف زدہ ہونے کے باوجود مان گئ۔ وہاج اور سمارا کے بعد ان دونوں کی باری تھی۔ جيسے ہی چئير لفٹ پاس آئ خبيب نے اسکا ہاتھ تھام ليا۔ "تيزی سے بيٹھنا ہے" اس نے ہدايت دی۔ جيسے ہی چئير لفٹ آئ ايک جھٹکے سے انہيں بٹھاتی وہ آگے بڑھ گئ۔ مگر وہيبہ کی چيخ پہاڑوں ميں گونجی۔ خبيب نے اسکے سامنے کا کور بند کيا۔ جيسے جيسے پہاڑ کو چھوڑ کر چئير لفٹ خلاء ميں معلق ہوئ نيچے موجود گہری کھائيوں کو ديکھ کر وہيبہ کا رنگ زرد ہوا۔ خبيب کے ہاتھ پر اسکی گرفت مضبوط ہوئ۔ اسکی اڑی رنگت ديکھ کر خبيب سے ہنسی روکنا مشکل ہوگيا۔ "آپ نے مجھے کہا تھا کہ سڑک ہے" وہيبہ نے اپنی خونخوار نظروں کا رخ ہنسی دباتے خبيب کی جانب موڑا۔ "عنقريب بننے والی ہے۔ آج ہم نے يہاں سے گزر کر اسکا افتتاح کيا ہے۔" خبيب کے مسکراتے لہجے پر وہ اور بھی روہانسی ہوئ۔ "بہت برے ہيں آپ اب آپکی کوئ بات نہيں ماننی ميں نے" وہ رونے والی ہوگئ۔ اس قدر گہری کھائياں ديکھ کر۔ دل تھا کہ بس ابھی بند ہوا۔ "کچھ نہيں ہوتا يار ميں ہوں نا" خبيب نے اسکے ہاتھ پر اپنا دوسر ہاتھ رکھ کر تھپتھپايا۔ "آپکے پاس کون سا پيرا شوٹ ہے کہ اگر ہم گرے تو آپ مجھے سابھ بچا ليں گے۔ آپ نے ايسے کيوں کيا ميرے ساتھ۔۔۔۔اف۔۔۔۔" جيسے ہی لفٹ اونچائ کی جانب جا رہی تھی وہيبہ کی حالت اور بھی غير ہو رہی تھی۔ اس نے آنکھيں بند کرليں۔ "وہ ديکھيں وہ دو بچے کتنے مزے سے بيٹھے ہيں کچھ شرم کريں آپ سے کتنے چھوٹے ہيں۔"خبيب نے اسکا دھيان بٹانا چاہا۔ "مجھے نہيں ديکھنا"وہ آنکھيں بند کئيۓ آيت الکرسی پڑھتے ہوۓ بولی۔ "ديکھيں تو صحيح ہر طرف برف سے ڈھکے پہاڑ۔۔کتنا رومينٹک ہے" اس نے دوبارہ اسکا بازو ہلايا۔ "يہ باتيں اپنی دوسری بيگم سے کيجئيۓ گا۔۔مجھ سے يہ رومانس والی باتيں نہ کيا کريں" وہ غصے سے بولی۔ "کيا کروں اب وہ تو ہے نہيں پاس سو آپ پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ ہبہ آنکھيں تو کھوليں" خبيب نے اپنیسی پوری کوشش کی مگر وہ ہبہ ہی کيا جو بات مان لے۔ جس وقت وہ پہاڑ پر اترے وہيبہ کی حالت غير ہوچکی تھی۔ سب آہستہ آہستہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ کچھ دير وہاں گھوم پھر کر وہ واپس جانے لگے۔ اسکے لئيۓ انہيں دوبارہ چئير لفٹ پر بيٹھنا تھا۔ "کوئ اور طريقہ نہيں يہاں سے جانے کے اس منحوس چئير لفٹ کے علاوہ۔" وہيبہ نے جھنجھلاتے ہوۓ کہا۔ "اب آپ کے لئيۓ ہيلی کاپٹر تو آنے سے رہا۔۔چپ کرکے چليں" خبيب نے اسے سرزنش کرتے دوبارہ سے اپنے ساتھ کھڑا کيا۔ ايک مرتبہ پھر وہ دونوں اکھٹے بيٹھے۔ وہيبہ کی وہی حالت تھی۔ "وہيبہ اب اگر آپ نے آنکھيں نہيں کھوليں تو ميں نے يہ کور ہٹا دينا ہے" خبيب نے اسے دھمکی دی۔ "پليز خبيب ويسے ہی مجھے کہہ ديں وہيبہ ميری جان چھوڑ دو۔۔۔ايسی باتيں کرکے ہارٹ اٹيک ضرور کروانا ہے" خبيب کی بات کو اس نے سيريس نہيں ليا۔ خبيب نے اسکے ہاتھ اپنے ايک ہاتھ ميں پکڑ کر يکدم سامنے کا کور ہٹا ديا۔ وہيبہ کی تو چيخيں گونجيں۔۔ "کيا کر رہے ہيں" وہ خوفزدہ نظروں سے کبھی نيچے اور کجھی خبيب کو ديکھ رہی تھی۔ "آپ کو صرف يہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ خوف تب تک خوف رہتا ہے جب تک آپ اسے خود پر حاوی کرکے آنکھيں بند کئيے رہتے ہيں۔ جب آنکھيں کھول ليں تب خوف نہيں رہتا۔" خبيب کی سنجيدہ بات پر وہ کچھ لمحے اسے ديکھتی رہی۔ پھر خاموش ہوگئ۔مگر منہ پھول چکا تھا۔ خبيب نے کور واپس آگے کر ليا۔ مگر جب وہ اترنے لگی اس نے خبيب کا ہاتھ تھامنے سے انکار کرديا۔ "وہيبہ گر جائيں گی" خبيب نے سمجھانا چاہا۔ "آپ نے جو ميرے ساتھ کيا ہے نا اب مين آپ سے بات نہيں کروں گی۔" وہيبہ اسکی بات کو خاطر ميں لاۓ بنا بولی۔ "ہبہ جھٹکے سے اترنا ہوتا ہے آپکو ابھی سمجھ نہيں آئ ہے۔۔۔گر جائيں گی" وہ پھر ان سنی کر گئ۔ جيسے ہی وہ اترنے لگے وہيبہ کا بيلنس خراب ہوا اور وہ گرنے لگی۔ گرتے ہوۓ چئير لفٹ کی اگلی سائيڈ اسکی گردن کے پچھلے حصے پر لگی۔ خبيب تيزی سے اسکی جانب بڑھا باقی جو لوگ آچکے تھے وہ بھی تيزی سے آۓ۔ وہيبہ تکليف سے تڑپ رہی تھی۔ خبيب نے جلدی سے بازوؤں ميں اٹھا یر گاڑی کی جانب دوڑ لگائ۔ فورا اسے ہاسپٹل پہنچايا۔۔ داکٹرز نے فوراّّ ٹريٹمنٹ دی جس سے اسکی گردن کی تکليف اسکی ريڑھ کی ہڈی پر اثر انداز نہيں ہوئ۔ سب نے شکر کيا مگر اسکی گرد ميں نيک لگ گيا جس سے کچھ دن وہ اپنی گردن کو ہلانے جلانے کی کوشش نہيں کر سکتی تھی۔ "منع کيا تھا نہ ميں نے ميرا ہاتھ نہ چھوڑيں اب تو مکمل طور پر مجھ پر ڈپينڈ کريں گی۔" خبيب نے اسے چڑايا۔ "مذاق اڑا رہے ہيں" وہیبہ کے روہانسی لہجے پر وہ مسکرايا۔ "نہيں ڈئير وارن کر رہا ہوں آئندہ ميری بات نہيں مانی تو نقصان آپکا ہی ہوگا۔" اس سے پہلے کہ وہ کوئ جواب ديتی سب کمرے ميں آگۓ۔ "شکر ہے تم نے تو ڈرا ديا تھا۔ خبيب نے بروفت تمہيں اٹھا کر گاڑی ميں ڈالا ورنہ ميرے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے" سمارا نے آتے ہی بتايا۔ جس وقت وہيبہ گری تکليف اتنی شديد تھی کہ وہيبہ کو ہوش ہی نہين تھا کہ کس نے اٹھايا اور کون اسے ہاسپٹل تک لے کر آيا۔ اس نے يکدم خبيب کی جانب ديکھا۔ جو اسکی دوائياں چيک کرنے ميں مصروف تھا۔ اس کے دل نے ايک بيٹ مس کی۔ بليک جينز اور براون ليدر کی جيکٹ پہنے وہ وہيبہ کے دل ميں اتر رہا تھا۔ اس نے گھبرا کر اس پر سے اپنی ںظريں ہٹائيں۔ اور پھر خبيب نے سب کو باری باری ريسٹ کے لئيۓ بھيجا مگر خود وہيبہ کا سايہ بن گيا۔ اسے اٹھا کر بٹھانا۔۔۔دوائيں کھلانا۔۔۔اس سے باتيں کرنا ايک لمحہ بھی اسے اکيلا نہيں چھوڑتا تھا۔ انکی آؤٹنگ تو درميان ميں ہی رہ گئ۔۔دو تين دن بعد جب وہيبہ سفر کرنے کے قابل ہوئ خبيب نے ٹکٹس کروا کر واپسی کی راہ لی۔
واپس آتے ساتھ ہی اگلے دن اس نے ايک فل ٹائم ملازمہ کا بندوبست کيا۔ سب کو اس نے منع کر ديا کہ گھر ميں کسی کو نہ بتائيں کہ وہيبہ کے ساتھ يہ مسئلہ ہوا ہے۔
باقی سب کو بھی يہی مناسب لگا۔
ربيعہ اور باقی سب کی چھٹياں ختم ہوئيں تو سب کشمکش ميں تھے کہ جائيں کہ نہ جائيں۔
کيونکہ وہيبہ کو ابھی ڈاکٹر نے بيڈ ريسٹ کا ہی کہاتھا۔
"آپ لوگ ريليکس ہوکر جائيں۔۔ريشم ہے نا اور پھر ميں بھی جلدی آجايا کروں گا۔۔۔ہبہ کی طرف سے آپ لوگ ٹينشن فری ہو کر جائيں" اس نے سب کو اطمينان دلا يا۔
وہيبہ کو بھی انہيں اپنی وجہ سے روکنا اچھا نہيں لگ رہا تھا۔
سب کی آفس اور کالجز کی چھٹياں ختم ہو رہی تھيں سو سب کا واپس جانا ضروری تھا۔
شام ميں جب خبيب واپس آيا سب جاچکے تھے۔
"کيسی ہے ميری لڑاکا بيوی" وہيب نے کمرے ميں داخل ہوتے سلام دعا کہ بعد اس کا حال پوچھا۔
"کوئ لڑاکا نہيں ہوں۔۔۔۔" اس نے منہ پھلا کر کھا۔
"ميں چينج کرکے آتا ہوں" وہ ڈريسنگ روم کی جانب بڑھا۔
مری سے واپس آکر خبيب نے وہيبہ کو اپنے ہی روم ميں شفٹ کر ليا تھا۔ يہ کہہ کر کہ رات ميں کسی وقت اسے کسی چيز کی ضرورت پڑی تو وہ خبيب کو کيسے اٹھاۓ گی۔
وہيبہ حيران ہوتی تھی۔ وہ ابھی صرف ہلتی تھی تو خبيب اٹھ کر بيٹھ جاتا تھا۔
"کيا ہوا۔۔کيا چاہئيۓ" ايسے فريش لہجے ميں پوچھتا جيسے سويا ہی نہ ہو۔
آفس ميں ہوتا تو بار بار فون کرکے اسکی طبيعت۔۔دوا اور ضرورت کا پوچھتا۔
وہيبہ اسکے جاتے ہی اسکے اتنے کيئرنگ انداز کو سوچ کر رو پڑی۔
اور جب اسکی اصل بيوی آجاۓ گی تو ميرا مقام کيا ہوگا۔
پھر آنسو پونچھے۔۔۔خبيب کی بات ياد آئ۔ "خود آگے بڑھ کر خوشيوں کو وصول کريں نہيں تو کوئ اور ان پر اپنا حق جتاۓ گا" کتنا صحيح کہا تھا خبيب نے مگر اب کيسے وہ اسے بتاۓ کہ اسے خبيب کی عادت ہوگئ ہے۔
جب جب وہ اسے ديکھتا تھا اسے ايسا کيوں لگتا تھا کہ اسے ديکھتے ساتھ ہی اسکی آنکھوں ميں اور ہی طرح کی چمک آتی ہے۔
يا پھر يہ سب اس کا وہم تھا۔۔وہم ايک بار ہوتا ہے دو بار ہوتا ہے بار بار نہيں ہوتا۔
پھر سے آنسو اسکی آنکھوں ميں اکھٹے ہوۓ اسی لمحے خبیب ڈريسنگ روم کے دروازے سے باہر آيا۔
"ارے کيا ہوا ہے۔۔۔درد تو نہيں ہور رہا گردن ميں۔۔۔ڈاکٹر کے پاس لے چلوں" اس نے گھبرا کر اسکے قريب آتے بے قراری سے کہا۔
وہيبہ کے رونے ميں اضافہ ہوا۔
"ہبہ کيا ہوا ہے بتاؤ تو صحيح" پريشانی سے بولا۔
بيڈ پر اسکے قريب بيٹھ کر اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ اپنے ہاتھوں کے پيالے ميں ليا۔
"کيا بات ہے" بے چارگی سے کہا۔
"ميں آپکو بہت تنگ کرتی ہوں نا" الفاظ تھے کہ۔۔۔۔
خبيب کے دل کی دنيا بے چين کرگۓ۔
"بہت زيادہ" خبيب کے لہجے کی آنچ کے آگے ٹھہرنا وہيبہ کے لئيۓ مشکل ہو گيا۔
پلکيں لرز کر عارضوں پر جھکيں۔
"اسے بھی ايسے ہی ديکھتے ہيں" وہيبہ کے سوال پر خبيب خفيف سا مسکرايا۔
"نہيں" وہيبہ نے چونک کر ديکھا۔
"وہ تو ميری جان ہے۔۔۔لہذا اسے تو پيار سے ديکھتا ہوں آپ تو دشمن اول ہيں" خبيب نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات ديکھے۔
اس نے ناراض نظروں سے اسے ديکھتے اپنے چہرے پر رکھے اسکے ہاتھ ہٹاۓ۔
"کچھ کھانے کو دل کر رہا ہے ابھی" خبيب نے کوئ مزاحمت نہ کی۔ پھر محبت سے پوچھا۔
"کھانا نہيں ہے چاۓ پينی ہے " اس نے بے جھجھک انداز ميں فرمائش کی۔
"اوکے ميں بنا کر لاتا ہوں"
"آپ بنائيں گے۔۔رہنے ديں تھکے ہوۓ آۓ ہيں پھر آپکی نيند بھی پوری نہيں ہوئ ريشم کو کہہ ديں" وہيبہ نے کام کرنے والی کا نام ليا۔
"ہاۓ نينديں تو اب اڑ ہی گئ ہيں" خبيب نے افسردگی سے کہا۔
پھر اٹھ کر باہر چلا گيا۔ تھوڑی دير بعد آيا تو ہاتھوں ميں دو کپ تھامے ہوۓ تھا۔
"تھينک يو" وہيبہ نے تشکر آميز لہجے ميں کہا۔
"ہبہ دادی کو معاف کرچکی ہيں" خبيب جو اسکے قريب بيڈ پر ہی بيٹھا تھا۔ کچھ دير بعد پرسوچ لہجے ميں کہا۔
"ہاں شايد۔۔بس دکھ ہے کہ انہوں نے ميری ماں کو کبھی اپنا جانا ہی نہيں۔ محبت خودغرض کيوں ہوتی ہے۔۔آپ نے تو کی ہے آپکو تو پتہ ہوگا نہ۔۔۔کيا يہ کسی بھی رشتے ميں ہو اسی طرح آزماتی ہے؟" وہيبہ کے لہجے پر خبيب
کا دل کيا اسے بتاۓ کہ محبت خودغرض نہيں ہوتی کم ازکم اسنے تو بے غرض محبت کی تھی۔ وہ کچھ دير اسکی جانب ديکھتا رہا۔
"نہيں۔۔۔محبت آپکو مان ديتی ہے۔۔۔اعتماد ديتی ہے۔۔۔اگر وہ پورے دل کی آمادگی کے ساتھ کی جاۓ ۔۔۔بہت سے لوگ رشتے تو بنا ليتے ہيں مگر محبت سے مبرا۔۔۔جہاں اپنی حيثيت۔۔انا اور غرور ہو وہاں محبت نہيں ہوتی وقتی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔چاہے وہ کسی بھی رشتے ميں ہو۔۔ماں کے رشتے ميں۔۔اولاد کے رشتے ميں۔۔يا پھر مياں بيوی يا کسی بھی اور رشتے ميں۔ محبت آپکو قيد کرنا نہيں سکھاتی اس ميں اتنا اعتبار اور يقين ہوتا ہے کہ جس سے بھی آپ محبت کريں آپ کو اس پر بھروسہ ہوتا ہے کو وہ جہاں بھی رہے دور يا نزديک وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ نۓ لوگوں اور رشتوں کے بن جانے سے پرانے رشتے اور لوگ اور ان سے ناطہ ٹوٹ نہيں جاتا۔ ہاں اگر ہم اسے محبت سے ہی قائم رکھيں تو وہ اور بھی پھلتا پھولتا ہے۔ دادی کے دل ميں يہی ڈر تھا کہ خديجہ چچی کے آجانے سے فراز چچا کے دل ميں انکی محبت ختم ہو جاۓ گی۔ ماں کو کبھی بھی بيٹوں کی بيويوں سے اپنی محبت اور مقام کا مقابلہ نہيں کرنا چاہئيۓ۔ ہر رشتے کی محبت الگ اور اپنی جگہ مستحکم ہوتی ہے ايسا نہ ہوتا تو اللہ اتنے رشتے ايک شخص کے ساتھ نہ باندھ ديتا۔" خبيب کا ايک ايک لفظ اسکے دل ميں اتر رہا تھا۔
کتنی خوش قسمت ہے وہ لڑکی جس سے اس شخص نے محبت کی ہے۔
اس نے حسرت سے اپنے سامنے بيٹھے۔۔۔اپنے وجيہہ شوہر کو ديکھا۔ جو اسکے پاس ہوتے ہوۓ بھی کتنی دور تھا۔
"ہيلو حسنہ بيٹے کيسی ہو" رقيہ بيگم جو پچھلے کچھ دنوں سے بيمار پڑيں تھيں۔ نجانے موسم کا اثر تھا يا کسی کی کمی کا اثر کے نقاہت اتنی طاری ہوگئ جس نے بيڈ کے ساتھ ہی لگا ديا۔ "ٹھيک ہوں اماں آپ کيسی ہيں کل ہی کامران سے پتہ چلا ہے کہ طبيعت ٹھيک نہيں آپکی" اس نے بھی انکی خيريت معلوم کی۔ "کل پتہ چلا تھا اور آج ميرے فون کرنے پر ہی تم نے ميرا حال پوچھا ہے" انہوں نے تلخی سے کہا۔ "ہاں تو اب فارغ تو نہيں نا ہزاروں کام ہوتے ہيں کرنے کو" حسنہ کے بے رخی بھرے لہجے نے انہيں تکليف پہنچائ۔ يہ سب انداز انہی کے تو دئيے ہوۓ تھے۔ وہ کب کسی کو خاطر ميں لاتی تھيں۔ اپنی اولاد تک سے ساری عمر فاصلہ رکھا تو اب کيسے ہو سکتا تھا کہ يکدم انکے قريب ہوجاتے۔ ان کا احساس کرتے۔ پہلی مرتبہ وہيبہ بہت شدت سے ياد آئ جو انکے بيمار ہونے پر آگے پيچھے پھرتی اور وہ نخوت کامظاہر کرتيں۔ "آکر مجھ سے مل ہی جاؤ" حسرت بھرا لہجہ۔۔ "افوہ کيا ہے اماں آپ تو بچی بن رہيں ہيں۔ ديکھوں گی ٹائم ہوا تو چکر لگا لوں گی۔" "جسنہ ميں اکيلی رہ گئ ہوں" نم لہجہ تنہائياں لئيۓ ہوۓ تھا۔ "تو وہ آپکی بہوؤئيں کہاں ہيں۔۔۔کھينچ کر رکھيں انہيں کيوں خدمت نہيں کرتيں آپکی اب ہم اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہاں آکر تو بيٹھنے سے رہے" وہ اور بھی بہت کچھ کہ رہيں تھيں مگر رفيہ بيگم نے بجھے دل سے فون بند کرديا۔ خدمت تو بہت سے کرنے والے تھے مگر اس تنہائ کا کوئ کيا کرتا جو انہوں نے اپنے لئيۓ خود چنی تھی۔ وہيبہ کی جدائ سے بھی بڑھ کر اسکی بے رخی اندر سے انہيں مار رہی تھی۔ شايد ايک وہی تھی جس سے انہوں نے محبت کی تھی۔ انتقام کی آگ ميں ايک ماں کو تکليف دے کر آج وہ بھی انہيں کی طرح آج اس پوتی کی محبت ميں تکليف سے دوچار تھيں جسے اولاد بنايا تھا مانا نہيں تھا۔۔مگر آج انہيں لگا تھا انکی اصل اولاد وہی تھی۔ جو انکے ڈپٹنے پر بھی چپکے سے انہيں آنکھيں موندا ليٹا ديکھ کر انکا سر دبانے بيٹھ جاتی۔۔ وہ بھی آنکھيں موند کر ليٹی رہتيں۔ حقيقت تو يہ تھی کہ وہ اسکی محبت کی عادی ہوگئيں تھيں۔ يہی سوچتی تھيں کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی وہ انہيں معاف کردے گی مگر لگتا تھا وہ انہيں عذاب مسلسل ميں مبتلا کرکے رہے گی۔ انہيں لگا يکدم ان کا دم گھٹنے لگا ہے۔ خديجہ کا آنسوؤں بھرا چہرہ راتوں کو انہيں سونے نہيں ديتا تھا۔ کچھ سوچ کر ہاتھ انٹرکام کی جانب بڑھايا جو کل ہی فراز انکے کمرے ميں لگا کر گيا تھا تاکہ انہيں کچھ چاہئيے ہو وہ بآسانی کسی کو بھی انٹر کام کے ذريعے کسی بھی وقت اپنے پاس بلاليں۔ کچھ دير بعد خديجہ ڈرتے ہوۓ کمرے ميں آئيں۔ "ميں آجاؤں" انہوں نے اسی خوفزدہ انداز ميں اجازت لی۔ نفيسہ نہانے گئيں تھيں نہيں تو زيادہ تر بس وہی رقيہ بيگم کے کمرے ميں آتی تھيں۔ "آجاؤبيٹا" خديجہ کے لئۓ انکا اتنا شيريں لہجہ حيرت زدہ کرنے کے لئۓ بہت تھا۔ وہ گنگ رہ گئيں۔ "آؤ نا ميرے پاس" انہوں نے انہيں وہيں رکے ديکھ کر کہا۔ وہ جھجھکتی ہوئ آئيں انہوں نے اپنے پاس بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ "سمجھ ميں نہيں آ رہا۔۔۔کس منہ سے کہوں کيسے کہوں۔۔۔بس ايک درخواست ہے۔۔۔" ان کی نگاہيں چھت پر تھيں۔ "کہيں اماں" حلاوت بھرا لہجہ۔۔انکی آنکھيں بھر آئيں۔ "مجھے معاف کردو۔۔۔۔ميں اس قابل نہيں ميں نے بہت علط کيا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔مگر وہيبہ سے کہو ايک بار مجھے سے مل جاۓ۔۔۔ميں جب تک تم سے معافی نہيں مانگوں گی اسکا دل صاف نہيں ہوگا۔۔۔ميں آج بھی خودغرض ہوں مگر۔۔۔۔۔مجھے آج پتہ چلا ہے ميں اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔ميں نے اسکو تم سے ہر طرح الگ کرنے کی کوشش کی مگر تمہارے خون کی تاثير الگ نہيں کرسکی جس ميں محبت گھلی تھی۔۔۔اس نے مجھے بے تحاشا محبت دی اور ميں نے ۔۔۔ميں نے اسکے ساتھ کيا کيا۔۔۔۔" وہ روتے ہوۓ بوليں۔ "وہ تمہارا پرتو ہے حالانکہ ميں نے اس کو تمہارے ساۓ سے بھی دور رکھنا چاہا۔۔۔ميں نے کوئ رشتہ بھی صحيح نہيں نبھايا۔۔۔ميرے ساتھ يہی ہونا چاہئيے تھا۔۔۔يہ تنہائياں ميں نے خود چنی ہيں۔ مگر اب يہ مجھے سانپ کی طرح ڈستی ہيں۔۔۔" "پليز اماں ايسے مت کہيں ميں تو کبھی اس ڈر سے آپکے قريب نہيں آئ کہ آپکو ميرا آنا برا لگتا تھا۔۔۔۔بس يہ سب ايسے ہی ہونا تھا۔۔پليز آپ دل پر مت ليں ميں وہيبہ کو سمجھاؤں گی" انہوں نے رقيہ بيگم کو تسلی دی۔ "وہ آۓ گی آپ سے ملنے۔۔۔بھلا کيسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے منہ موڑ لے۔" وہ انکی بات پر بس ہلکا سامسکرائيں